سائنس فِکشن پر ہونے والے بہت سارے کام کے مطابق یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک دن مشینیں انسانوں کی طرح کام کرنا شروع کر دیں گی۔ ایسی مشینیں جو انسانوں کی طرح سیکھ سکیں، سوچ سکیں اور فیصلے کر سکیں، بہت پہلے سے قیاس آرائیوں کا محور رہی ہیں، یہاں تک کہ سائنس دان اور انجینئیرز نے اب ان پر کام شروع کر دیا ہے۔
اگرچہ اس سلسلے میں ابھی بہت زیادہ ترقی نہیں ہو سکی لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجینس اور مشین لرننگ کی دنیا میں کافی دلچسپ بہتریاں آئیں گی۔
امریکہ کی Purdue University کے محققین مصنوعی ذہانت (AI) کے لیے انسانی دماغ سے متاثر ہونے والے ہارڈویئر بنا رہے ہیں تاکہ AI کو وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل سیکھنے میں مدد ملے۔
ان کا مقصد AI کو اس قابل بنانا ہے کہ بعد میں اس کو خلا میں بھیجے جانے والے روبوٹس یا پھر خود کار گاڑیوں میں استعمال کیا جا سکے۔ AI کو سافٹ ویئر کی شکل میں چلانے کی بجائے براہ راست ہارڈ ویئر میں embed کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ جن مشینوں پر اس کو embed کیا جائے گا وہ زیادہ بہتر طریقے سے کام کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔
MIT انجینئرز نے دماغ کی طرز پر ایک چپ تیار کی ہے جس میں ہزاروں مصنوعی دماغی synapses، یا memristors، صرف ایک چپ پر لگائیں جو کہ کنفیٹی (رنگین کاغذ کے چھوٹے ٹکڑے) سے چھوٹی ہوتی ہے۔
Memristors (میموری ٹرانزسٹر) سلیکون سے بنے اجزاء ہیں جو انسانی دماغ کے معلومات کو منتقل کرنے والے synapses کی نقل کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ "چِپ والے” یہ نام نہاد دماغ ایک دن چھوٹی اور portable ڈیوائسسز میں لگا دیئے جائیں، اور یہ ڈیوائسسز وہ پیچیدہ computational کام کرنا شروع کر دیں جو آج صرف سوپر کمپیوٹرز کر پاتے ہیں۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آٖف ہانگ کانگ کے ڈیویلپرز نے انسانی دماغ کی طرز پر ایک ڈیوائس تیار کی ہے جو کہ انسانوں کی طرح سیکھ سکتی ہیں۔ یہ ڈیوائس synaptic transistors کی مدد سے association کے ذریعے سیکھتی ہے۔ synaptic transistors معلومات کو ایک ہی وقت میں پورسس اور سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ذیل میں ان تین پروجیکٹس کی تفصیلات ہیں جن کا مقصد کمپیوٹرز کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ انسانی دماغ کی نقل کر سکیں:
Purdue پروجیکٹ
فروری 2022 میں سائنس میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں Purdue یونیورسٹی کے ڈیویلپرز نے وضاحت کی کے کس طرح کمپیوٹر چِپس اپنے آپ کو متحرک رکھ کر دماغ کی طرح نیا ڈیٹا قبول کرنے کے قابل بن سکتی ہیں، تاکہ AI کو مستقل طور پر لرننگ کے عمل کو جاری رکھنے کے قابل بنایا جا سکے۔
سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے دماغ نیورانز کے درمیان مسلسل رابطے بناتا رہتا ہے۔ اسی طرح دماغ کی طرح کی کمپیوٹر چِپ بنانے کے لیے چِپ کے اوپر موجود سرکِٹس بھی تبدیل کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ سرکٹ جسے کمپیوٹر برسوں سے استعمال کر رہا ہے وہی سرکٹ ہے جو فیکٹری میں کمپیوٹر کے لیے بنایا گیا تھا۔
Purdue یونیورسٹی کے ایک پروفیسر Shriram Ramanath کے مطابق، ریسرچرز کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ چِپ کو program, reprogram یا تبدیل کر سکیں۔ رامناتھ اور ان کی ٹیم نے نیا ہارڈ ویئر بنایا جسے ضرورت کے مطابق برقی اشاروں کے ساتھ دوبارہ پروگرام کیا جا سکتا ہے۔
ٹیم کی سوچ یہ ہے کہ چونکہ یہ ڈیوائس مطابقت پذیر (Adaptable) ہے، اس لیے یہ انسانی دماغ سے متاثر کمپیوٹر بنانے کے لیے ضروری تمام افعال انجام دے سکے گا۔
Purdue کے مطابق؛ "تجرباتی اعداد و شمار کے نقالی کے ذریعے، سانتا کلارا یونیورسٹی اور پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی میں Purdue ٹیم کے ساتھیوں نے یہ ظاہر کیا کہ اس آلے کی اندرونی طبیعیات مصنوعی نیورل نیٹ ورک کے لیے ایک متحرک ڈھانچہ بناتی ہے جو الیکٹرو کارڈیوگرام پیٹرن اور ہندسوں کو جامد نیٹ ورک کے مقابلے میں زیادہ مؤثر طریقے سے پہچاننے کے قابل ہے۔”
یہ نیورل نیٹ ورک "reservoir computing” کا استعمال کرتا ہے جو یہ بتاتی ہے کہ دماغ کے مختلف حصے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرتے اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ٹیم اب بڑے پیمانے پر ٹیسٹ چپس پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے جس کی مدد سے دماغ کی طرح کا کمپیوٹر تیار کیا جا سکتا ہے۔
ایم آئی ٹی کا "Brain on a chip” پراجیکٹ
ایک بیان کے مطابق؛
"ایم آئی ٹی ریسرچرز اس دن کے لیے کام کر رہے ہیں جب لوگ مصنوعی دماغوں کو (جو کام کرتے ہوں)، انٹرنیٹ، سوپر کمپیوٹرز یا کلاؤڈ ڈیوائسسز کے ساتھ جوڑے بغیر اپنے ساتھ لے کر پِھر سکتے ہوں۔”
بیان میں کہا گیا ہے کہ ” brain synapse (دماغ کی ہم آہنگی) کی طرح، ایک Memristor (یادداشت والا مصنوعی حصہ) بھی کسی دی گئی موجودہ طاقت سے وابستہ ویلیو کو ‘یاد’ کرنے کے قابل ہو گا، اور اگلی بار جب اسے اسی طرح کا کرنٹ ملے گا تو بالکل وہی سگنل پیدا کرے گا۔”
Nature NanoTechnology ویب سائٹ کے ایک آرٹیکل میں سائنسدانوں نے وضاحت کی کے کس طرح ان کی دماغ کے جیسی کمپیوٹر چِپ نے Captain America کی شیلڈ کی تصویر کو یاد رکھا اور Memristor پر ایک ایک پکسل کو ٹھیک اُسی طرح سیٹ کیا جس طرح حقیقی تصویر میں تھا، اور اس طرح کئی بار ہوبہو اس شیلڈ کی تصویر کو دوبارہ تخلیق کیا۔
اس آرٹیکل میں، MIT کے محققین نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ اس "brain-on-a-chip” کو موبائل آلات پر پیچیدہ کام انجام دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے, ایسے کام جو فی الحال صرف سپر کمپیوٹر ہینڈل کر سکتے ہیں۔
انسانی دماغ کے سیکھنے کے عمل کی نقل کرنے والی Brain-like ڈیوائس
ہانگ کانگ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ میں نارتھ ویسٹرن اور یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے ریسرچرز نے ایک روسی سائکولوجسٹ Ivan Pavlov کی نقل کرتے ہوئے، جس نے کتوں کو خوراک دینے کے لیے گھنٹی کی آواز کے ساتھ سُدھایا تھا، اپنی کمپیوٹگ ڈیوائس کو لائٹ اور پریشر کے ساتھ ٹرین کیا۔
اس ریسرچ کے مطابق یہ ڈیوائس الیکٹروکیمیکل "Synaptic Transistors” کو استعمال کرتے ہوئے، جو کہ ایک ہی وقت میں انفارمیشن کو پروسس اور سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انسانی دماغ کی نقل کرتی ہے۔ یہ Synapses دماغ کو انتہائی متوازی، غلطی برداشت کرنے والے، اور توانائی کے موثر انداز میں کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
اس ڈیوائس کے پلاسٹ کے synapse بالکل اُسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح قدرتی حیاتیاتی synapse کام کرتے ہیں۔
اس کی دماغ جیسی صلاحیت کے ساتھ، انوکھے ٹرانزسٹر اور سرکٹ روایتی کمپیوٹنگ کی پابندی کو ممکنہ طور پر ختم کر سکتے ہیں، بشمول ان کا energy-sapping ہارڈویئر اور ایک ہی وقت میں متعدد کام انجام دینے کی محدود صلاحیت کے۔
اس Brain-like ڈیوائس میں غلطی کی برداشت بھی زیادہ ہوتی ہے، کچھ اجزاء کے ناکام ہونے پر بھی آسانی سے کام کرتا رہتا ہے۔ موجودہ کمپیوٹر سسٹمز میں میموری اور لاجک کو الگ الگ رکھا گیا ہے، لیکن اگر ان دونوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو جگہ کی بچت بھی ہو گی اور توانائی کی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
اور نئے کمپیوٹنگ ڈیوائس کے نرم، پلاسٹک نما پولیمر محققین کو اس قابل بنائیں گے کہ وہ اسے سمارٹ روبوٹکس، پہننے کے قابل الیکٹرانکس، اور یہاں تک کہ لوگوں میں لگائے جانے والے آلات میں ضم کر سکیں۔
خلاصہ
اگرچہ روبوٹس کا عام ہونا ابھی بھی پوری طرح سے حقیقت کے روپ میں نہیں ڈھلا، لیکن یہ بہتریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سائنسدان دماغ کی حیاتیاتی مشینری کی نقل تیار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور یہ کہ ایک دن وہ ایسے کمپیوٹر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو انسانی دماغ کی طرح کام کر سکیں۔
مزید پڑھیں:
3D پرنٹنگ کیا ہے اور اس کے کیا کیا استعمالات ہیں؟